Waseem khan

Add To collaction

08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -غلط فہمی قسط8


غلط فہمی
از مشتاق احمد
قسط نمبر8

اندر کویئ کیوں نہیں تھا۔ سارا گھر خاموش۔ ایک کمرہ میں گئی تو سامنے بھائی بیٹھا تھا۔
 وہ فوری بولا آپ کون اور یہاں اندر کیسے پوچھے بنا۔ وہ مجھے ماریہ سے ملنا ہے یہ کہ کر نظریں آس پاس گھومتی گھماتی ہے۔
 وہ یہاں نہیں ہوتی۔ انکی امی سے مل لیتی ہوں اب اتنی دور سے آئ ہوں تو۔ وہ بھی یہاں نہیں ہیں۔ اوکے ان کے ابو تو ہوں گے اب ماریہ کا صبر ٹوٹ رہا تھا۔ 
نہیں ماریہ جی یہاں پر میں اور آپ ہیں ضیاء کہتا ہے۔ ماریہ سن کے کانپ گی جی می ماریہ کی دوست ہوں۔
 ہاہاہا اچھا ضیاء سامنے کھڑا ہو کے اس کی آنکھوں میں جھک کے جھانکتا ہے یہی لمحہ تھا جس وقت ماریہ کمزور پڑی ضیاء کو دھکا دے کر باہر کو بھاگی پر گیٹ بند تھا۔
 بہت مزہ آ رہا ہے مجہے ماریہ آخر مجہے مل ہی گئی نہ۔ ماریہ کے قدم پیچھے ہو رہے تھے اور ضیاء کے آگے۔ دیوار کودنے کو بھاگی ۔
ضیاء نے دبوچ لیا اب کہاں بھاگتے دے سکتا تھا مشکل سے تو ہاتھ لگی تھی۔ 
اس کی امی ابو باہر آ گئے پلیز ہماری بیٹی کو چھوڑ دو اسنے کچھ نہیں کیا تمہاری غلط فہمی ہے بیٹا۔ ابو امی میں نے کچھ نہیں کیا میرا یقین کریں۔ 
بیٹا ہمیں یقین ہے بیٹا ضیاء کرلو یقین ۔
ہماری بیٹی کی بہن تھی بچپن کی دوست تھی۔ وہ مر کر بھی ایسا کچھ نہیں کر سکتی۔ 
ضیاء ہنسا ہاں تو مر کر ہی جا کے صفا کو صفائی دے۔ اس سے معافی مانگے۔ ضیاء نے ماریہ کو بالوں سے پکڑ لیا تھا۔ 
ہاتھوں کی سختی سے اس کی نفرت کا ماریہ کو اندازہ ہو رہا تھا۔ کھینچ کر لے جا رہا تھا باہر۔ 
چھوڑ دو مجہے ضیاء۔ جب تمہیں اصلیت کا پتہ لگ تب پچھتاؤ گے۔ 
نہیں پچھتاتا چلو میرے ساتھ۔ دھکا مارا ماریہ سڑک پر منہ کے بل گری۔ ناک سے خون آنے لگا تھا گھر والے ضیاء کو روک رہے تھے۔
 گاڑھی میں بٹھایا دھکا مار کر اور گیا۔ 
گھر لے جا کر اسنے ماریہ کو باندھ دیا میں بتاؤں گا تمہیں کسی کی خوشیوں کو تباہ کرنے کی سزا کیسی ہوتی ہے۔
 میری صفا کو مارا تھا نا تم نے۔ اب مرو گی تم ۔مار کر ملا کیا تمہیں۔ مجہے پانا تھا نا۔
 میں تو تھا ہی صفا کا۔ بھاگنا تھا تو مارا کیوں۔ کیوں ہماری خوشیوں کو برباد کیا۔ 
رونے لگا۔ میں نے کچھ نہیں کیا اب بھی کہتی ہوں ضیاء۔ غصہ میں منہ جکڑ لیا اتنا زور سے کہ انگلیاں اس کے چہرے پر نشان چھوڑ گیں۔
 ماریہ رو رہی تھی۔ کال کی۔ تھوڑی دیر بعد ایک عورت اندر آیی۔ اس پر نظر رکھو اور کچھ کھانے کو نہیں دینا اسکو۔ 
اوکے سر اس نے تابیداری سے جواب دیا۔ میں کل آؤں گا۔ امجد اپنے کاموں میں لگا ہوا تھا۔ اسکو پتہ لگا تو سوچا مجہے ماریہ سے اتنی بے وقوفی کی امید نہیں تھی۔ 
اب مجہے کچھ کرنا پڑے گا ورنہ اسکا حال برا کرے گا یہ ضیاء۔ کچھ بندوں کو ساتھ لگا کہ رہنے کی جگہ ڈھونڈتا رہا وہ بھی ضیاء کے آس پاس ۔
کچھ محنت کے بعد امجد کو اس کے گھر کے سامنے والی لائن میں گھر مل گیا۔
 اب وہ نظر رکھ سکتا تھا۔ اصل مقصد ماریہ کو نکال کے لے جانا ہی تھا۔ اگلے دن آ کر اس نے جائزہ لیا۔ بری حالت تھی ضیاء کی آنکھوں میں صفا کا مسکراتا چہرہ گھوم گیا۔ تھپڑوں کی برسات کردی ماریہ پر۔
 اب بھی سکوں نا ملا تو بیلٹ لے کر مارنے لگا۔ پورے گھر میں ماریہ کی چیخوں کی آوازیں تھیں۔ 
ادھر امجد پریشان تھا کے اتنی سیکورٹی میں وہ کیا کرے ابھی تو اسے بھی تماشا دیکھنا تھا۔
 اس نے دوربین نکالی ضیاء کے گھر پر ہر جگہ دیکھ رہا تھا اسکو ایک کمرہ میں ماریہ دیکھی بہت بری حالت میں امجد کے تو دیکھتے جبڑے بھینچ گئے۔ ضیاء رسی سے باندھ رہا تھا ۔
وہ کھڑی تھی مشکل سے۔ اسکی ٹانگوں کو بندھ رسی کا دوسرا سرا وہ اوپر تختے سے گزار کر لے آیا۔ امجد بےبسی سے دیکھ رہا تھا۔ 
رسی کھینچی تو ماریہ الٹی لٹک گی۔ اوہ نو۔ یہ دیکھ کر اس امجد نے سر پکڑ لیا مزید دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔ امجد حیران تھا کہ وہ اتنا سخت مزاج قتل بھی ہوتے لوگوں کو بری حالت میں بھی دیکھتا پر ماریہ کا ایسی حالت میں ہونا کیوں اسکو پریشان کر رہا تھا۔
 مجبور ہو رہا تھا۔ دل میں درد سا ہونے لگا تھا۔ میں نہیں دیکھ سکتا اب اور۔ مجہے کچھ کرنا ہے۔
 اور جلد ہی کرنا ہے۔ 
دیوار پے مکے مارتے تھکا تو ڈرنک کی طرف آ گیا جس کا عادی وہ بیرون ہوا تھا۔ 
ضیاء چھوڑ دو مجہے میں  نے نہیں کیا کچھ۔ ضیاء کے تو کان بند تھے۔ 
الٹی لٹکی رہی یہاں ٹک کے ہوش میں نا رہی۔ 
سنو۔ اسکو اتنا کھانا دینا کہ یہ زندہ رہ سکے سرونٹ کو بول کر باہر نکل گیا۔ 
رپورٹ رجسٹر تو تھی ہی۔ ضیاء نے شو کیا کہ مجرم پکڑ لیا گیا ہے۔ ماریہ کی طرف سے اس کے گھر والوں نے وکیل کیا پر ضیاء کا پلڑھا بھاری تھا۔ 
امجد نے ساری تیاری کر لی تھی اور پیچھے اپنے امی ابو کو بھی صورت حال سے آگاہ کف دیا تھا۔ اب وہ موقع کے انتظار میں تھا۔ 
ٹکٹ کا انتظام ہو چکا تھا۔ ماریہ کی آج پیشی تھی جس میں پھانسی یا عمر قید ہونی تھی ماریہ کو۔ ضیاء سکون سے تھا کیوں کے اپنے مطابق اس نے قاتل کو انجام ٹک پہنچا ہی دیا تھا۔ 
اپنے بندوں کو آرڈر دیا کد احتیاط سے لانا بھاگتے کے قابل رہی تو نہیں پھر بھی خیال رکھنا۔ میں عدالت میں ملوں گا۔ یہ کر کر گیا اور امجد کا کام آسان بنا گیا ۔
ماریہ کو لیڈی پولیس ساتھ کچھ مرد تھے انہوں نے گاڑھی میں بٹھایا۔ آدھے راستے پر امجد نے بندے کھڑے کر رکھے تھے نقاب میں۔ انہوں نے آنسو گیس پھینکی اور ماریہ کو ایسے لے اڑے کہ انکو سمجھ نا آیی۔ 
انکو کیا پتہ کہ امجد تھی کون سی ہستی۔ ایسا ماہر کھلاڑی تو اس کے چیلے کیسے ہوں گے۔ ضیاء انتظار میں تھا۔ جیسے فون پر پتہ لگا گاڑھی بھگائی  ایمرجنسی لگوا دی۔ دوسری طرف ماریہ کو کندھے پے لادے امجد گھر چلا آ رہا تھا۔
ماریہ کو آ کر بیڈ پر لٹايا۔ماریہ ٹھیک ہو نا تم؟
امجد تم۔ ماریہ نے حیرٹ میں پوچھا۔ 
ہاں میں تمہیں تنہا چھوڑنا نہیں چاہتا تھا دیکھو وہی ہوا نا جس کا ڈر تھا۔ می نہ ہوتا تو تمہیں بچاتا کون۔ 
ماریہ رونے لگی وہ اب بھی سمجھتا ہے سب میں نے کیا سب ۔
 پریشان نا ہو عقل اے گی کبھی تو۔ تم لیٹو میں ابھی آیا تھوڑی دیر بد ہلدی والا دودھ امجد کے ہاتھ میں تھا۔
 یہ پیو پھر مرہم لگا دوں۔ ماریہ غنودگی میں تھی اور امجد کے باتھ تیزی سے کام کر رہے تھے۔ اس نے سب کچھ اتار دیا تھا اب اصل صورت میں ماریہ سامنے تھی۔
 وہ مگن تھا اس کے حسن میں مجہے نہیں پتہ تھا تم اتنی سندر ہو جھک کر اسکی پیشانی پر کس کی۔ ماریہ جاگو ماریہ۔
 ہیلو باہر کا حال دو مجہے۔ امجد کسی سے بات کر رہا تھا۔ مجہے لگتا ہے ابھی جانا خطرے سے خالی نہیں۔ ہفتہ انکو تھکنے دیتا ہوں ۔
ابھی سوچ رہا تھا کہ ڈور بیل ہوئی۔ ڈور ہول سے  جھانکا تو داد دی ضیاء کو۔ ماریہ سنو آواز نہ نکالنا اسکو اٹھا کر صوفے کے گدے کی جگہ چھپاتا ہے۔
 نیچے سے جگہ بنایی کہ سانس سہی اے۔ ڈور کھولا۔ اتنی دیر سے کیوں کھولا ڈور۔ ایک آدمی اندر داخل ہو کر آس پاس دیکھنے لگا۔ 
کیا ہوا آپ کیا دیکھ رہے ہیں۔ کچھ نہیں۔ ہمیں اپنا کام کرنے دو اپنا کارڈ دکھا کے کچھ بندوں کو آرڈر دیے۔ 
وہ پورا گھر چیک کر رہے تھے۔ پھر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد امجد نے ماریہ کو نکالنے سے پہلے چپ چیکر نکالا اور پورے گھر کا راؤنڈ لیا گراؤنڈ سمیت پھر اطمینان کر کے ماریہ کے پاس آیا۔ 
نکال کر بیڈ پر لٹايا تم ٹھیک ہونا اسکا جائزہ لیتے پوچھا۔ ماریہ نے ہاں میں سر ہلایا۔
کال آیی سر انہوں نے سکین کیمرے لئے ھوے ہیں۔ امجد ہنسا مان گیا میں تمہیں ضیاء بہت اچھی کار کردگی ہے تمہاری۔
 کچھ کرنا ہے تب ہی تو نکل سکیں گے۔ سوچنے لگا۔ پبلک ٹرانسپورٹ سہی رہے گی۔
 پر احتیاط سے۔ ماریہ اس ایک ہفتہ میں امجد کی دیکھ بھال سے بہتر ہو گئی تھی۔
 اب وہ اسکو تیار کرا رہا تھا۔ ایک گھنٹہ بعد وہ ایک کالی سی دیہاتی عورت کی صورت میں تھی اور امجد ایک بوڑہے باپ کی شکل میں۔
 ماریہ سے پوچھ رہا تھا پتہ ہے نہ کیا کرنا ہے۔ ماریہ نے ہاں میں سر ہلایا۔ گڈ۔ چلو پھر نکلتے ہیں۔ 
اب وہ ایک وین میں بیٹھ رہے تھے۔ خوف پر قابو پانا۔ یہی ہمیں سلامت لے جائے گا۔
 اوکے۔ امجد اسکو سمجھا رہا تھا۔ چیکنگ کے مراحل سے ہوتے آخر وہ ایک گھر میں پھنچے ماریہ حیران ہوئی۔
 بیٹا ہمیں تمہارے چچا سے ملنا ہے پھر گھر جایں گے۔ ماریہ نے حیرانی سے دیکھا تو سمجھ گئی۔ 
جی ابا۔ اب انہوں نے ادھر تین چار دن رہنا تھا۔ اس کے بعد اگلا قدم جو آخری ہی تھا۔
 ضیاء پھر حیران تھا کہ کون لے اڑا ماریہ کو اتنی مشکل سے تو پکڑا تھا۔ 
یعنی وہ کسی گینگ کے ساتھ ملی ہوئی ہے اب تو ضیاء کی سوچ کو سلام تھا۔
 وہ ضیاء پیچھے رہ گیا تھا جو عقل سے کام لیتا تھا۔ ماں ماریہ کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ 
میں اسکو لے کر جا رہا ہوں۔ پھر جلد آؤں گا۔ 
ذرا خطرہ تل جاۓ آپ دعا کرنا۔ بات کر کے اب وہ ایئر پورٹ کھڑے تھے
۔ ضیاء ند cctv photage نکلوائی سنو ائیرپورٹ کو اپنی حد میں لو۔ 
مجہے پہلے خیال کیوں نہیں آیا۔ ٹینشن میں تھا۔ ضیاء تم نے ماریہ کو تکلیف دی مطلب مجہے درد دیا۔
 اب تمہیں تڑپانا ہے۔ سلام امجد نے ضیاء کو کال کی تھی۔
 وعلیکم اسلام جی بولیں۔ ضیاء نے کسی کی کال کا مقصد پوچھا۔ 
بتانا تھا کچھ امجد نے مسکرا کر کہا ضیاء نے ٹینشن سے پوچھا کیا بتانا تھا جلدی بتایں۔
 اف ضیاء اتنی بھی جلدی کیا ہے ہر وقت تو رهتے ہو آرام سے دھیرج رکھو۔
 اب ضیاء غصہ میں بولا میرا ٹائم برباد نہ کریں جو کہنا ہے کہو۔ ماریہ کو جانتے ہو وہ اس وقت ائیرپورٹ ہے اور میں بھی۔
امجد چبا کر بولا ۔ تم جانتے نہیں ہو ماریہ کو وہ خونی ہے اسکو میرے حوالے کردو اب کے ضیاء چیخا اور بھاگا نفری لے کر۔ 
اف ضیاء تم اب کچھ نہیں کر سکتے ٹائم از اوور ہاہاہا۔ امجد نے جو بدلہ لینا تھا وہ لے لیا۔
 وہ اس وقت پلین میں تھے جو تھا بھی ملائيشيا کا اور واپس جا رہا تھا سواری کے ساتھ۔
 امجد جانتا تھا کہ پاک کا ہوتا تو ضیاء رکوا لیتا اسکو نہیں رکوا سکتا جتنا زور لگا لے۔
 تبھی تو امجد نے ضیاء کو چنوتی دی۔ دوسری طرف ضیاء نے حکام سے بات کی پر وہ بےبسی ظاہر کر رہے تھے۔
 ہمیں ادھر کی حکومت سے بات کرنی ہوگی۔ اعلان ہو رہا تھا فلائٹ کا۔
 ضیاء بھاگ کر لاؤنج آیا جہاں ایک مرد کھڑا ضیاء کو بائے کا اشارہ کر رہا تھا۔
 چھوڑوں گا نہیں میں تم لوگوں کو ضیاء چیخا اور پلین فلائی کر گیا۔ 
امجد جانتا تھا اگلی فلائٹ میں ضیاء ہوگا پر اس ٹائم وہ اپنے گھر پھنچے ہوں گے جہاں کہانی نے سرے سے شروع ہو کر ختم ہوگی۔
 اب امجد نے پاس بیٹھی ماریہ کو دیکھا جو نیند میں تھی پھر سکون سے خود بھی آنکھیں موند لیں۔

   0
0 Comments